حرفِ آغاز

تحصیل علوم دین کا مقصد

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          ”شعبان المعظم“ کا مہینہ ہمارے لیے اگر اس حیثیت سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہ رمضان المبارک کی آمد کا مُنادی ہے اور ہر مرد مسلم کو دعوت دیتاہے کہ ماہ رمضان (جو گلستانِ اسلام کا موسم بہار ہے) کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو اچھی طرح تیار کرلو۔

          وہیں یہ مہینہ اس اعتبار سے بھی علمی و دینی معاشرہ کے لیے باعثِ اہمیت ہے کہ اسلامی دانش گاہوں کا تعلیمی سال اسی ماہِ عظیم میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔ ہماری ان دینی تعلیم گاہوں کا تعلیمی و تربیتی آغاز ”شوال“ میں ہوتا ہے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طالبانِ علوم نبوت دینی مدارس میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے چشمہٴ فیض سے اپنے اپنے ظرف و حوصلہ کے مطابق علم وآگہی اور فکر وفن کے آبِ حیات سے سیراب ہوتے ہیں، ان طلبہٴ علوم میں بہت سے وہ ہوتے ہیں جن کا تعلیمی سفر تعلیمی سال کے اس اختتامی مہینہ میں تکمیل کی منزل سے ہم کنار ہوجاتا ہے، جہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔

          اس موقع پر ہمارے ان ہونہار نوجوانوں کو خوب اچھی طرح یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہماری تمام تر علمی ودینی کاوشوں اور محنت و ریاضت کا بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت سے بہرہ ور ہونا، ہمارے حسنِ عمل اور اخلاصِ نیت پر موقوف ہے۔ اگر آپ اپنے اندر اخلاص و للہیت کی صفت پیداکرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو پھر یقین کرلیجیے کہ کامیابی و کامرانی کی کنجی آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے، اور گوہرِ مقصود آپ کے قبضہ میں ہے۔

          اور اگر ہمارا دل اخلاص سے عاری اور للہیت سے نا آشنا ہے، تو تمام تر علمی لیاقت و صلاحیت کے باوجود ہم اپنے آپ کو نامرادی کے اس اندیشہ سے بہرحال محفوظ نہیں رکھ پائیں گے کہ

ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اَعرابی

کیں راہ تو می روی بہ ترکستان است

          تحصیل علوم دین کا مقصدِ واحد رضائے الٰہی ہونی چاہیے ”مَنْ خَرَجَ فِيْ طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَ فِيْ سَبِیْلِ اللہ“ کی بشارت کا استحقاق اسی وقت ہوگا جبکہ تعلیم وتحصیل کا مقصود خوشنودیِ ربِ کائنات ہو، اسی بناء پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ”الجامع الصحیح“ میں سب سے پہلے حدیث پاک ”اِنَّمَا الْأعْمَالُ بِالنِّیَاتِ“ کو لاکر واضح اشاروں میں یہ بتادیا کہ تحصیلِ علوم کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے نیت کاجائزہ لے لینا ضروری ہے۔

          آپ اس وقت اپنے تعلیمی سفر کی تکمیل کے بعد جہد وعمل، کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے پرتول رہے ہیں تو اس اگلے سفر کوشروع کرنے سے پہلے خانہٴ دل کو اخلاص وللہیت سے معمور کرلیجیے، اور بغیرکسی خوف و اندیشہ کے تعمیر وترقی کے میدان میں اتر جائیے کیوں کہ اخلاص کی مضبوط و مستحکم بنیاد پر جو عمارت بھی قائم کیجائے گی وہ ان شاء اللہ استوار و پائیدار ہوگی، بہ صورت دیگر یہی علوم ومعارف جو دونوں جہان کی صلاح و فلاح کا ضامن ہیں، ابدی حرمان وخسران کاسبب بن جاتے ہیں؛ چنانچہ نبیِ صادق ومصدوق علیہ الصلوٰة والسلام کا ارشاد ہے ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِیَ بِہ العُلَمَاءَ، اَوْ لِیُمَارِیَ بِہ السُّفَھَاءَ، أوْ یُصْرِفَ بِہ وُجُوْہَ النَّاسِ الَیْہِ أدْخَلَہُ اللہُ النَّارَ“ جس نے علم دین اس غرض سے حاصل کیا؛ تاکہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے گا، یا تاکہ اس کے ذریعہ احمقوں سے حجت بازی کرے گا،یا لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے نارِجہنم میں داخل کریں گے۔

          میرے عزیزو! زندگی کے یہ لمحات بڑے اہم ہیں آپ کو اس وقت اچھی طرح اپنے دل کو ٹٹول لینا چاہیے، اگر اخلاصِ نیت کی جانب سے ذرا بھی بے اطمینانی ہو تو پہلے اس کی فکر کیجیے، اِسے قطعی طور سے مت بھولیے کہ اخلاصِ نیت اور جذبہٴ قربانی کے بغیر صحیح طورپر دین واسلام کی خدمت انجام نہیں دی جاسکتی، اسلام کی پوری تاریخ اس بات کی شاہدِ عدل، اور سچی گواہ ہے کہ اسلام کی صحیح معنوں میں خدمت انجام دینے والے، اور اسلام ومسلمانوں پر جب بھی کوئی افتاد پڑی ہے، تو اس کی حفاظت و پاسبانی کافریضہ انجام دینے والے خدا کے مخلصین بندے ہی تھے، اخلاص وایثار کے انہی پیکروں نے ہمیشہ ملت کی کشتی کو طوفانوں سے بچاکر امن وسلامتی کے ساحل تک پہنچایا ہے، اپنے اسلاف و اکابر کے تراجم اور حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیجیے،آپ کو صاف طورپر نظر آئے گا کہ ہمارے بزرگوں نے، تعلیم و تصنیف، تبلیغ وجہاد، دعوت وارشاد وغیرہا دین کے شعبوں میں جو گرانقدر اور تاریخ ساز کارنامے انجام دیے ہیں، اس میں اصل کارفرمائی، اخلاص وایثار ہی کی تھی۔

          اسی کے ساتھ آپ یہ بھی اچھی طرح جان لیجیے کہ کارگاہِ حیات میں دوسری چیز جو آپ کی سب سے بڑی معاون اور نیک نامی وسرخ روئی کی ضامن ہے، وہ آپ کا حسنِ اخلاق و نیک کردار ہے، آپ حسنِ اخلاق سے وہ سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں جو دوسرے ذرائع سے حاصل نہیں ہوتے، آپ کا یہی وہ جوہر ذاتی ہے جو دشواریوں کو آسانی سے تاریکیوں کو روشنی سے اور ناکامیوں کو کامیابی سے ہم کنار کردے گا۔

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

          آپ دینی تعلیم گاہوں سے اپنا تعلیمی نصاب مکمل کرکے جارہے ہیں، آپ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ مالکِ کائنات نے آپ کو وارثین انبیاء کی صف میں شامل کردیا ہے، انسانی مقام ومرتبہ پر نبوت سے بالا وبلند تر کوئی مقام ودرجہ نہیں ہے؛ اس لیے لازمی طورپر وراثتِ نبوت سے بڑھ کر کوئی وراثت ہوہی نہیں سکتی۔ یہ آپ کی انتہائی سعادت مندی و نیک بختی ہے کہ رب العالمین نے اس عظیم ترین وراثت کے لیے آپ کاانتخاب فرمایا ہے، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ؛ اس لیے ہرگز ہرگز مایوسی واحساسِ کمتری کا ادنیٰ تصور بھی دل و دماغ کے گرد بھٹکنے نہ پائے، آپ سے عظیم تر دولت اس عالم دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے اِلاَّ یہ کہ اس وراثتِ نبوت میں جو لوگ آپ کے شریک ہیں۔

          پس اخلاص و ایثار اخلاق و کردار کے چراغ سے اپنے دل کو روشن کرلیجئے! دنیا آپ سے اکتسابِ نور کے لیے امنڈپڑے گی اور ناکامی و نامرادی کے اندھیرے چراغِ اخلاص واخلاق کی ضیاپاشیوں سے اس طرح کافور ہوجائیں گے کہ دور دور تک ان کا نام ونشان بھی نہیں ملے گا۔

کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو

کہ خورشیدِ قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء